Home > Personalities > ایک آشنا اجنبی کی یاد میں-محمد علی نقوی

ایک آشنا اجنبی کی یاد میں-محمد علی نقوی

n00221894-t

انسان ایک عجیب و غریب مخلوق ہے، خداوند عالم نے اسے عظیم امانت سپرد کرنے کے باوجود ظالم اور جاہل قرار دیا ہے، لیکن انسان آپس میں بھی کچھ اسطرح کے رویے
رکھتے ہیں کہ کسی انسان کو مکمل طور پر پرکھنا اور اسکے بارے میں حتمی رائے دنیا ایک مشکل امر ہوتا ہے، دنیا میں انسان شناس افراد بہت کم ہوتے ہیں، اگر ہوتے بھی ہیں تو وہ کسی انسان کے تمام پہلوؤں کی مکمل عمیق اور گہری معرفت کا دعویٰ نہیں کرسکتے اور اگر کہیں کرتے بھی ہیں تو ان کے پاس اس کی مستند دلیل نہیں ہوتی۔ انسان تو خود اپنے آپ کو نہیں پہنچانتا، کجا یہ کہ کوئی دوسرا اس کا صحیح ادراک کرسکے۔

انسان تضادات کا مجموعہ بھی ہے، لہذا اس کی کسی ایک خوبی کی بدولت اس کی دوسری اچھائی یا برائی کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ ممکن ہے ایک شخص محفل میں انتہائی مہربان اور حلیم ہو، لیکن اپنے اہل خانہ یا کسی دوسرے حلقے میں اس کی شخصیت اسکے مکمل برعکس ہو۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ہیں کہ بڑے بڑے دلیر اور سورما میدان جنگ میں تو دشمن کے لئے خدا کا عذاب بن جاتے ہیں لیکن تنہائی یا میدان جنگ سے باہر ایک انتہائی حلیم اور مہربان فرد کے طور پر زندگی گزارتے ہیں۔ اسکے برعکس بھی بہت سی مثالیں ہیں، صدر اسلام کی ایک بہت نامور شخصیت جس کا کوڑا اور غضب مسلمانوں اور لاچاروں پر ہمیشہ برسنے کے لئے تیار رہتا تھا، لیکن میدان جنگ میں یہ حضرت کسی دشمن کو خراش بھی لگانے کی ہمت و جرات نہیں کرتے تھے۔
شاید اسی طرح کے افراد کو دیکھ کر قرآن پاک میں اشارہ ہوا کہ:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

مومن رزمگاہ میں دشمن کے مقابلے میں سیسہ پلائی دیوار ہوتا ہے جبکہ منافق حلقہ یاراں میں فولاد بن کر اپنوں کو فتح کرنے میں کوشاں رہتا ہے۔

اسی طرح کی صفات کی روشنی میں ایک انسان کی دوسرے انسان سے آشنائی پیدا ہوتی ہے۔ انسان بعض اوقات اپنے آپ کو کسی کا بہت ہی قریبی اور صمیمی دوست سمجھتا ہے، جبکہ تمام تر ظاہری قربت اور ہم آہنگی کے باوجود وہ حقیقت میں ایک دوسرے سے اجنبی ہوتے ہیں، بعض اوقات اسکے برعکس بھی ہوتا ہے، انسان کی کسی سے ملاقات ہوتی ہے اور انسان چند لمحوں میں احساس کرنے لگتا ہے کہ وہ صدیوں سے ایک دوسرے سے آشنا ہیں، زمان و مکان سمٹ جاتے ہیں اور انتہائی کم وقت کی قربت مکمل ہم آہنگی و صمیمیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ سماجی ماہرین کی نظر میں اس قربت و صمیمیت اور فوری ہم آہنگی کے پیچھے نظریات اور طرز تفکر کا ایک ہونا ہوتا ہے۔

جن افراد کے درمیان نظریاتی ہم آہنگی ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے وژن اور اہداف کو درک کرنے لگتے ہیں تو انہیں نزدیکی دوست یا نظریاتی ساتھی بننے میں دیر نہیں لگتی۔ اہداف اور وژن کا باہمی دوستی اور آشنائی میں نہایت اہم کردار ہوتا ہے، البتہ یہاں پر ایک اور بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ بعض اوقات نظریاتی ہم آہنگی تو ہو جاتی ہے لیکن اہداف اور اہداف تک رسائی کے بارے میں اختلاف بھی آشنا کو اجنبی میں تبدیل کر دیتا ہے۔ آج جس آشنا اجنبی کا ذکر مقصود ہے اس کے بارے میں بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ وہ بہت سے دوستوں کا آشنا اور رفیق تھا، لیکن اکثر اس سے اور بہت سے اس کے لئے اجنبی تھے۔ شہید علی ناصر ایک منفرد وژن اور مثالی اہداف کا حامل ایک فرد تھا، اس میں دوست بنانے کی صلاحیت اپنے عروج پر تھی، لیکن کوئی اسکی آشنائی کی حدود میں داخل نہیں ہو پاتا تھا۔

ملک، تشیع اور مستضعفین کے بارے میں اسکا وژن غیر معمولی نوعیت کا تھا، جب وہ اسکے بارے میں تفصیل سے گفتگو کرتا تو اسکے بہت سے آشنا اجنبی ہو جاتے، وہ جب اپنے ہدف تک پہنچنے کے لئے اپنے لائحہ عمل اور طریقہ کار کا اظہار کرتا تو بڑے قریبی دوست اجنبی اجنبی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگتے، یہ مسئلہ صرف شہید علی ناصر صفوی کو درپیش نہیں تھا بلکہ تاریخ میں بہت سی شخصیات ایسی گزری ہیں جو اپنے دور کے لئے اجنبی تھیں، لیکن بعد کی نسلوں نے انہیں پہچانا اور اس سے آشنا ہوئی۔

شہید علی ناصر صفوی اور ایران کی ایک انقلابی شخصیت شہید نواب صفوی میں بہت سی مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔ شہید نواب صفوی کو بھی اس دور کے بڑے بڑے آگاہ دانشور حتی مرجع تقلید بھی صحیح طرح پہچان نہ سکے، بلکہ بعض اوقات تو شہید نواب صفوی کو ان بزرگان کی وجہ سے مشکلات اور اعتراضات کے کوڑے سہنے پڑے۔ شہید نواب صفوی بھی اپنے اہل خانہ اور اپنے مخصوص دوستوں کی ایک ٹیم جس میں ان کی ٹیم کے اہل خانہ بھی شامل تھے، شاہ کی ظالم و ستم گار خفیہ ایجنسی ساواک سے برسرپیار رہے، شہید ناصر صفوی کا انداز بھی ان سے بہت زيادہ ملتا جلتا تھا۔

شہید نواب صفوی بھی اندر سے انتہائی جذباتی اور بے چین طبیعت کے مالک تھے، لیکن یہ جذباتیت اور بے تابی انکے امور میں نظر نہیں آتی تھی، شہید ناصر صفوی کے اندر بھی جذبات کا بے کران سمندر موجزن رہتا، لیکن اپنے تنظیمی امور کو اس سے متاثر نہیں ہوتے دیتے تھے، بلکہ بعض اوقات تو انکی لمبی چوڑی منصوبہ بندی پر دوست احباب احتجاج کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ دونوں جسمانی بناوٹ کے لحاظ سے لاغر اور مرنجاں مرنج شخصیت تھے، لیکن امور کی انجام دہی کے موقع پر انکے ظاہری لاغر اور کمزور بدن میں ایک بجلی سے دوڑ جاتی اور سخت سے سخت حالات میں انکے چہرے کا اطمینان دوستوں کو حیران و ششدر کر دیتا تھا۔

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک بار شہید نواب صفوی کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میرے اندر انقلاب کی ابتدائی چنگاری بھڑکانے میں سب سے بنیادی کردار شہید نواب صفوی کا ہے، جن کی تقریر سن کر میرے اندر انقلاب کے لئے ایک نیا جذبہ بیدا ہوا، شہید علی ناصر کے حوالے سے بھی بہت سے دوستوں نے اسکا اعتراف کیا ہے۔ بہت سے ایسے افراد کو جن میں علماء اور روایتی شیعہ بھی شامل ہیں، جن کے اندر شہید ناصر صفوی نے اپنی مخصوص گفتگو سے تشیع کے دفاع کی چنگاری روشن کی۔

شہید علی ناصر بھی بہت سے دوسرے شہداء کی طرح بہت سے راز اپنے ساتھ لیکر منوں زمین کے نیچے دفن ہوگيا، وہ اجنبی اس دنیا سے گيا، اس کی زندگی کا “نیمہ پنہاں” نصف پوشیدہ حصّہ قریبی ترین دوستوں کی نظر سے اوجھل رہا، وہ نصف پوشیدہ حصّہ کیا تھا، شہادت کی آرزو تھی، ملت تشیع کی ترقی و پیشرفت کی تمنا تھی، نوجوان نسل کی آگاہی کی خواہش تھی، لشکر امام مہدی (‏ع) میں شامل ہونے کی امید تھی یا یادگار موت کی حسرت۔ قصہ مختصر، وہ اجنبی زندہ رہا اور اجنبی دنیا سے اٹھ گيا، ملت تشیع کے اس بے مثال، جفاکش، پردرد اور مخلص سپوت کی شہادت پر نہ کوئی احتجاجی مظاہرہ ہوا، نہ جنازہ شان و شوکت سے اٹھا، نہ اسکی شایان شان برسی منائی جاتی ہے، نہ کوئی اسکے کارناموں کو یاد کرتا ہے، وہ اجنبی زندہ رہا اور اجنبی دنیا سے اٹھ گيا۔

اس آشنا اور مانوس اجنبی پر ہم سب کا عقیدت بھرا سلام۔
گئے دنوں کا سراغ لیکر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ

خوشی کی رت ہو کہ غم کا موسم، نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم
وہ بوئے گل تھا کہ نغمہ جان، میرے تو دل میں اتر گیا وہ

وہ میکدے کو جگانے والا، وہ رات کی نیند اڑانے والا
نہ جانے کیا اس کے جی میں آئی کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ

نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا، نہ فرصتوں کی اداس برکھا
یونہی ذرا سی کسک ہے دل میں، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ

وہ ہجر کی رات کا ستارا، وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کا نام پیارا، سنا ہے کل رات مر گیا وہ

شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں
جو قافلہ میرا ہمسفر تھا، مثل گرد سفر گیا وہ

  1. No comments yet.
  1. No trackbacks yet.

Leave a comment